فلک پہ چاند ہے اور پاس اک ستارہ ہے
یہ تیری میری محبت کا استعارہ ہے
شب و سحر کے تسلسل میں یہ طلوع و غروب
سمجھنے والوں کو اک دکھ بھرا اشارہ ہے
یہ تیرے سوزن مژگاں کے بس کی بات نہیں
یہاں تو پیرہن جاں ہی پارہ پارہ ہے
فقط کرشمۂ طرز نظر ہے سود و زیاں
کسی کا نفع کسی کے لیے خسارہ ہے
وہ جس نے مجھ کو کہیں کا نہیں رکھا اک عمر
وہی خیال وہی آرزو دوبارہ ہے
نئی جگہ مجھے مانوس سی لگی تو کھلا
یہ کوئی خواب میں دیکھا ہوا نظارہ ہے
یہاں سے جو بھی گیا لوٹ کر نہیں آیا
بتائے کون کہاں دوسرا کنارہ ہے
غزل
فلک پہ چاند ہے اور پاس اک ستارہ ہے
فراست رضوی