EN हिंदी
فلک پہ چاند ہے اور پاس اک ستارہ ہے | شیح شیری
falak pe chand hai aur pas ek sitara hai

غزل

فلک پہ چاند ہے اور پاس اک ستارہ ہے

فراست رضوی

;

فلک پہ چاند ہے اور پاس اک ستارہ ہے
یہ تیری میری محبت کا استعارہ ہے

شب و سحر کے تسلسل میں یہ طلوع و غروب
سمجھنے والوں کو اک دکھ بھرا اشارہ ہے

یہ تیرے سوزن مژگاں کے بس کی بات نہیں
یہاں تو پیرہن جاں ہی پارہ پارہ ہے

فقط کرشمۂ طرز نظر ہے سود و زیاں
کسی کا نفع کسی کے لیے خسارہ ہے

وہ جس نے مجھ کو کہیں کا نہیں رکھا اک عمر
وہی خیال وہی آرزو دوبارہ ہے

نئی جگہ مجھے مانوس سی لگی تو کھلا
یہ کوئی خواب میں دیکھا ہوا نظارہ ہے

یہاں سے جو بھی گیا لوٹ کر نہیں آیا
بتائے کون کہاں دوسرا کنارہ ہے