فلک پر کوئی سازش ہو رہی ہے
سمندر پر ہی بارش ہو رہی ہے
ہٹائے جا رہے ہیں کام کے لوگ
نکموں پر نوازش ہو رہی ہے
دبایا جا رہا ہے خوبیوں کو
جہالت کی نمائش ہو رہی ہے
برائی چل رہی ہے پیٹھ پیچھے
مگر منہ پر ستائش ہو رہی ہے
نوازا جا رہا ہے دشمنوں کو
وفاداروں سے پرسش ہو رہی ہے
عتیقؔ اب چل چلاؤ کی گھڑی ہے
دعاؤں کی گزارش ہو رہی ہے
غزل
فلک پر کوئی سازش ہو رہی ہے
عتیق مظفر پوری