EN हिंदी
فلک کی گردشیں ایسی نہیں جن میں قدم ٹھہرے | شیح شیری
falak ki gardishen aisi nahin jin mein qadam Thahre

غزل

فلک کی گردشیں ایسی نہیں جن میں قدم ٹھہرے

حبیب موسوی

;

فلک کی گردشیں ایسی نہیں جن میں قدم ٹھہرے
سکوں دشوار ہے کیوں کر طبیعت کوئی دم ٹھہرے

قضا نے دوستوں سے دیکھیے آخر کیا نادم
کئے تھے عہد و پیماں جس قدر وہ کل عدم ٹھہرے

چھوا تو نے جسے مارا اسے اے افعئ گیسو
یہ سب تریاق میرے تجربہ کرنے میں سم ٹھہرے

کیا جب غور کوسوں دور نکلی منزل مقصد
کبھی گر پائے شل اٹھے تو چل کر دو قدم ٹھہرے

لگا کر دل جدا ہونا نہ تھی شرط وفا صاحب
غم فرقت کی شدت سے کرم جور و ستم ٹھہرے

جو کچھ دیکھا وہ آئینہ تھا آنے والی حالت کا
جہاں دیکھا یہی آنکھوں کے کانسے جام جم ٹھہرے

عمل کہنے پہ اپنے حضرت واعظ کریں پہلے
گنہ کے معترف جب ہیں تو وہ کب محترم ٹھہرے

جوانی کی سیہ مستی میں وصف زلف لکھا تھا
بڑھا وہ سلسلہ ایسا کہ ہم مشکیں قلم ٹھہرے

یہ ثابت ہے کہ مطلق کا تعین ہو نہیں سکتا
وہ سالک ہی نہیں جو چل کے تا دیر و حرم ٹھہرے

بشر کو قید کلفت مایۂ اندوہ و آفت ہے
رہے اچھے جو اس مہماں سرا میں آ کے کم ٹھہرے

حبیبؔ ناتواں سے راہ الفت طے نہیں ہوتی
عجب کیا گر یہ رستہ جادۂ ملک عدم ٹھہرے