فلک کے ہاتھوں جدھر منہ اٹھائے جاتا ہوں
ادھر سے جوں گل بازی طپانچہ کھاتا ہوں
کبھی ہے آنکھوں میں زر دیدہ پہ نگہ ان کی
کہ میں ہر ایک سے آنکھ اپنی اب چراتا ہوں
ہوا کے گھوڑے پہ جب وہ سوار ہوتے ہیں
تو پا کے وقت میں کیا کیا مزے اڑاتا ہوں
خلافی ان کے وہ آنکھیں جو یاد آتی ہیں
تو اپنی آنکھوں کو رو رو کے میں سجاتا ہوں
بلا سے گر نہیں ملتے وہ مجھ سے پر معروفؔ
انہوں کا شہر میں عاشق تو میں کہاتا ہوں
غزل
فلک کے ہاتھوں جدھر منہ اٹھائے جاتا ہوں
معروف دہلوی