EN हिंदी
فلک کا ہر ستارا رات کی آنکھوں کا موتی ہے | شیح شیری
falak ka har sitara raat ki aankhon ka moti hai

غزل

فلک کا ہر ستارا رات کی آنکھوں کا موتی ہے

جمیل ملک

;

فلک کا ہر ستارا رات کی آنکھوں کا موتی ہے
جسے شبنم سحر کی شوخ کرنوں میں پروتی ہے

وہی مستی مری دھڑکن ہے میرے دل کی جوتی ہے
جو تیری نیلگوں آنکھوں میں گہری نیند سوتی ہے

زمین درد میں چاہت وفا کے بیج بوتی ہے
تو کیا کیا جاوداں لمحات کی تخلیق ہوتی ہے

تڑپتی ہے مرے سینے میں ایسے آرزو تیری
کوئی جوگن گھنے جنگل میں جیسے چھپ کے روتی ہے

یہ میری سوچ ہر ذرے میں سورج کی تمنائی
یہ دل کی روشنی کو لمحے لمحے میں سموتی ہے

گئے وقتوں کی پہنائی چھلک جاتی ہے آنکھوں سے
اندھیری رات میں جب قطرہ قطرہ اوس روتی ہے

کہاں ملتی ہے وہ راحت نئے یخ بستہ چہروں میں
پرانے دوستوں سے مل کے جو تسکین ہوتی ہے