فلک چکر میں کیوں چونسٹھ گھڑی ہے
گرہ اس کے بھی طالع میں کڑی ہے
کوئی عیسیٰ نفس ہے آنے والا
اجل گوشہ میں وہ دبکی کھڑی ہے
ترے در پر ہجوم عاشقاں ہے
تمنا بھی تمنائی کھڑی ہے
تبسم سے ترے گلشن میں ہے نور
گلوں پر چاندنی لوٹی پڑی ہے
اگر عاشق نہیں موئے کمر پر
یہ چوٹی کس لئے پیچھے پڑی ہے
کوئی ہٹتی ہے حسرت ان کے در سے
کھڑی ہے ڈٹ گئی ہے جا اڑی ہے
بہ وقت ذبح بسمل تیغ ہوگی
دل عاشق کو ایسی تر پھڑی ہے

غزل
فلک چکر میں کیوں چونسٹھ گھڑی ہے
عاشق اکبرآبادی