فلک بنایا گیا ہے زمیں بنائی گئی
اماں کی کوئی جگہ ہی نہیں بنائی گئی
نکلتی کس طرح کوئی یقین کی صورت
یقین کی کوئی صورت نہیں بنائی گئی
چلیں گے ہم بھی محبت نگر سمجھ کے اسے
گر ایسی کوئی بھی بستی کہیں بنائی گئی
بجھے بجھے ہوئے منظر وہ جس مقام کے تھے
ہمارے رہنے کی صورت وہیں بنائی گئی
جب اس کو غور سے دیکھا تو آنکھ بھر آئی
سمجھ رہا تھا میں دنیا حسیں بنائی گئی
کسک سجائی گئی اس میں پہلے سجدوں کی
پھر اس کے بعد ہماری جبیں بنائی گئی
نبیلؔ اتارا گیا مجھ کو آسمان سے یوں
فسردہ خاک مری ہم نشیں بنائی گئی
غزل
فلک بنایا گیا ہے زمیں بنائی گئی
نبیل احمد نبیل