فیض پہنچے ہیں جو بہاروں سے
پوچھتے کیا ہو دل نگاروں سے
آشیاں تو جلا مگر ہم کو
کھیلنا آ گیا شراروں سے
کیا ہوا یہ کہ خوں میں ڈوبی ہوئی
لپٹیں آتی ہیں لالہ زاروں سے
ان میں ہوتے ہیں قافلے پنہاں
دل شکستہ نہ ہو غباروں سے
ہے یہاں کوئی حوصلے والا
کچھ پیام آئے ہیں ستاروں سے
ہم سے مہر و وفا کی بات کرو
ہوش کی بات ہوشیاروں سے
کوئے جاناں ہو دیر ہو کہ حرم
کب مفر ہے یہاں سہاروں سے
غزل
فیض پہنچے ہیں جو بہاروں سے
حبیب احمد صدیقی