فاصلے کے معنی کا کیوں فریب کھاتے ہو
جتنے دور جاتے ہو اتنے پاس آتے ہو
رات ٹوٹ پڑتی ہے جب سکوت زنداں پر
تم مرے خیالوں میں چھپ کے گنگناتے ہو
میری خلوت غم کے آہنی دریچوں پر
اپنی مسکراہٹ کی مشعلیں جلاتے ہو
جب تنی سلاخوں سے جھانکتی ہے تنہائی
دل کی طرح پہلو سے لگ کے بیٹھ جاتے ہو
تم مرے ارادوں کے ڈولتے ستاروں کو
یاس کے خلاؤں میں راستہ دکھاتے ہو
کتنے یاد آتے ہو پوچھتے ہو کیوں مجھ سے
جتنا یاد کرتے ہو اتنے یاد آتے ہو
غزل
فاصلے کے معنی کا کیوں فریب کھاتے ہو
احمد ندیم قاسمی