فاصلہ جب مجھے احساس تھکن بخشے گا
پاؤں کو پھول بھی کانٹوں کی چبھن بخشے گا
کتنے سورج اسی جذبے سے اگائے میں نے
کوئی سورج تو مرے گھر کو کرن بخشے گا
چاہتا ہوں کہ کبھی مجھ کو بھی بستر ہو نصیب
جانے کس روز خدا مجھ کو بدن بخشے گا
لوگ کہتے ہیں کہ صحرا کو گلستاں کہہ دو
اس کے بدلے میں وہ چاندی کے سمن بخشے گا
بے لباسی کا کریں بھی تو گلا کس سے کریں
زندہ لاشوں کو یہاں کون کفن بخشے گا
صرف دو چار درختوں پہ قناعت کیسی
وہ سخی ہے تو مجھے سارا چمن بخشے گا
چھین کر مجھ سے وہ لمحوں کی لطافت آزرؔ
ذہن آسودہ کو صدیوں کی تھکن بخشے گا

غزل
فاصلہ جب مجھے احساس تھکن بخشے گا
مشتاق آذر فریدی