فائدہ کیا تمہیں سنانے کا
موت عنواں ہے اس فسانے کا
ہم بھی اپنے نہیں رہے اے دل
کس سے شکوہ کریں زمانے کا
زندگی چونک چونک اٹھی ہے
ذکر سن کر شراب خانے کا
کس کی آنکھوں میں آئے ہیں آنسو
رخ بدلنے لگا زمانے کا
برق نظروں میں کوند اٹھتی ہے
نام سنتے ہی آشیانے کا
نقشؔ کشتی کے ناخدا وہ ہیں
لطف ہے آج ڈوب جانے کا
غزل
فائدہ کیا تمہیں سنانے کا
مہیش چندر نقش