فائدہ آنے سے ایسے آ کے پچھتائیں ہیں ہم
اٹھ گئے جب یاں کے گزرے آہ تب آئیں ہیں ہم
اور کچھ تحفہ نہ تھا جو لاتے ہم تیرے نیاز
ایک دو آنسو تھے آنکھوں میں سو بھر لائیں ہیں ہم
طرفہ حالت ہے نہ وہ آتا ہے نہ جاتا ہے جی
اور یہاں بے طاقتی سے دل کی گھبرائیں ہیں ہم
جس طرف جاتے وہاں لگتا نہیں کیا کیجیے
اس دل وحشی کے ہاتھوں سخت اکتائیں ہیں ہم
دیکھیے اب کیا جواب آوے وہاں سے ہم نشیں
نامہ تو لکھ کر حسنؔ کا اس کو پہنچایں ہیں ہم
غزل
فائدہ آنے سے ایسے آ کے پچھتائیں ہیں ہم
میر حسن