EN हिंदी
عذار یار پہ زلف سیاہ فام نہیں | شیح شیری
ezar-e-yar pe zulf-e-siyah-fam nahin

غزل

عذار یار پہ زلف سیاہ فام نہیں

خواجہ محمد وزیر لکھنوی

;

عذار یار پہ زلف سیاہ فام نہیں
مگر یہ حشر کا دن ہے کہ جس کی شام نہیں

فراق یار میں دونو سے ہم کو کام نہیں
ہوس سحر کی نہیں آرزوۓ شام نہیں

ولائے کعبۂ ابرو سے منہ کو کیا پھیروں
نماز ختم نہ ہو جب تلک سلام نہیں

یہ سیف آپ کی مثل پری سہی قد ہے
مگر یہ عیب ہے چلتی نہیں خرام نہیں

کہو نہ سرو کو اک زر خرید ہی اپنا
کیا جو بندے کو آزاد پھر غلام نہیں

نہیں اعادۂ طاعت کو پیشوا درکار
قضا نماز کو کچھ حاجت‌ امام نہیں

کسی طرح شب فرقت بسر نہیں ہوتی
کچھ اس کو گردش ایام سے بھی کام نہیں

جو اس نے بات نہ کی ہو گیا مجھے اثبات
دہن وہ تنگ ہے گنجائش کلام نہیں

بجھی ہے آب سے کیا تیری تیغ تیز کی آنچ
کہ خونفشاں مرے دل کا کباب خام نہیں

پھری ہے فرقت جاناں میں چشم دختر رز
یہ گردش آنکھ کی ساقی ہے دور جام نہیں

نہ دیکھا نقش قدم کا صدائے پا نہ سنی
سمند عمر سا کوئی سبک خرام نہیں

برہنہ رہتی ہے شمشیر ابرو قاتل
مثال تیغ اجل حاجت نیام نہیں

بندھیں وہ ہاتھ حنا سے کیا ہے جن سے شہید
کچھ اور یار سے منظور انتقام نہیں

نہ داغ دو شب فرقت کا دن کو نام نہ لو
ابھی چراغ نہ روشن کرو کہ شام نہیں

جگر سے سینے سے دل سے گزر گئی دم میں
تری طرح تری تلوار کو قیام نہیں

ستارۂ‌‌ فلک حسن کہئے کم سن ہے
ابھی وہ چاند کا ٹکڑا مہ تمام نہیں

پھرے طلب میں جو دنیا کی وہ نہیں دیں دار
مثال دانہ جو گردش میں ہے امام نہیں

نہ خط مصحف عارض کا معتقد ہو وزیرؔ
حروف جس میں ہوں اللہ کا کلام نہیں