EN हिंदी
اعتکاف میں زاہد منہ چھپائے بیٹھا ہے | شیح شیری
etakaf mein zahid munh chhupae baiTha hai

غزل

اعتکاف میں زاہد منہ چھپائے بیٹھا ہے

کیف بھوپالی

;

اعتکاف میں زاہد منہ چھپائے بیٹھا ہے
غالباً زمانے سے مات کھائے بیٹھا ہے

وائے عاشق ناداں کائنات یہ تیری
اک شکستہ شیشے کو دل بنائے بیٹھا ہے

طالبان دید ان کے دھوپ دھوپ پھرتے ہیں
غیر ان کے کوچے میں سائے سائے بیٹھا ہے

اس طرف بھی اے صاحب التفات یک مژگاں
اک غریب محفل میں سر جھکائے بیٹھا ہے

دور باش اے گلچیں وا ہے دیدۂ نرگس
آج ہر گل نازک خار کھائے بیٹھا ہے

کیوں سنا نہیں دیتا فیصلہ مقدر کا
نامہ بر مرے آگے خط چھپائے بیٹھا ہے

صبح کی ہوا ان سے صرف اتنا کہہ دینا
کوئی شمع کی اب تک لو بڑھائے بیٹھا ہے