اعتکاف میں زاہد منہ چھپائے بیٹھا ہے
غالباً زمانے سے مات کھائے بیٹھا ہے
وائے عاشق ناداں کائنات یہ تیری
اک شکستہ شیشے کو دل بنائے بیٹھا ہے
طالبان دید ان کے دھوپ دھوپ پھرتے ہیں
غیر ان کے کوچے میں سائے سائے بیٹھا ہے
اس طرف بھی اے صاحب التفات یک مژگاں
اک غریب محفل میں سر جھکائے بیٹھا ہے
دور باش اے گلچیں وا ہے دیدۂ نرگس
آج ہر گل نازک خار کھائے بیٹھا ہے
کیوں سنا نہیں دیتا فیصلہ مقدر کا
نامہ بر مرے آگے خط چھپائے بیٹھا ہے
صبح کی ہوا ان سے صرف اتنا کہہ دینا
کوئی شمع کی اب تک لو بڑھائے بیٹھا ہے
غزل
اعتکاف میں زاہد منہ چھپائے بیٹھا ہے
کیف بھوپالی