ایک وحشت ہے رہ گزاروں میں
قافلے لٹ گئے بہاروں میں
ساز خاموش آرزو بیمار
کوئی نغمہ نہیں ہے تاروں میں
اس طرف بھی نگاہ دزدیدہ
ہم بھی ہیں زندگی کے ماروں میں
یہ تو اک اتفاق ہے ورنہ
آپ اور میرے غم گساروں میں
آدمی آدمی نہ بن پایا
بستیاں لٹ گئیں اشاروں میں
دیکھ کر وقت کے تغیر کو
چاند سہما ہوا ہے تاروں میں
تھے کبھی روح انجمن شوکتؔ
اب تو ہیں اجنبی سے یاروں میں
غزل
ایک وحشت ہے رہ گزاروں میں
شوکت پردیسی