ایک اداسی دل پر چھائی رہتی ہے
میرے کمرے میں تنہائی رہتی ہے
سینے میں اک درد بھی رہتا ہے بیدار
آنکھوں میں کچھ نیند بھی آئی رہتی ہے
دل دریا کی تھاہ بتائیں کیا جس میں
سات سمندر کی گہرائی رہتی ہے
ہم بھی اسی بستی کے رہنے رہنے والے ہیں
جس میں تیری بے پروائی رہتی ہے
پہلو میں اب سیفؔ مرا کیا باقی ہے
دل ہے جس میں یاد پرائی رہتی ہے
غزل
ایک اداسی دل پر چھائی رہتی ہے
سیف الدین سیف