ایک ٹوٹی ہوئی زنجیر کی فریاد ہیں ہم
اور دنیا یہ سمجھتی ہے کہ آزاد ہیں ہم
کیوں ہمیں لوگ سمجھتے ہیں یہاں پردیسی
ایک مدت سے اسی شہر میں آباد ہیں ہم
کاہے کا ترک وطن کاہے کی ہجرت بابا
اسی دھرتی کی اسی دیش کی اولاد ہیں ہم
ہم بھی تعمیر وطن میں ہیں برابر کے شریک
در و دیوار اگر تم ہو تو بنیاد ہیں ہم
ہم کو اس دور ترقی نے دیا کیا معراجؔ
کل بھی برباد تھے اور آج بھی برباد ہیں ہم

غزل
ایک ٹوٹی ہوئی زنجیر کی فریاد ہیں ہم
معراج فیض آبادی