ایک طوفان کا سامان بنی ہے کوئی چیز
ایسا لگتا ہے کہیں چھوٹ گئی ہے کوئی چیز
سب کو اک ساتھ بہائے لیے جاتا ہے یہ سیل
وہ تلاطم ہے کہ اچھی نہ بری ہے کوئی چیز
ایک میں کیا کہ مہ و سال اڑے جاتے ہیں
اے ہوا تجھ سے زمانے میں بچی ہے کوئی چیز
عشق نے خود رخ گلنار کو بخشا ہے فروغ
ورنہ کب اپنے بنائے سے بنی ہے کوئی چیز
یعنی زخموں کے گلستاں پہ بہار آ گئی پھر
یعنی اب بھی مری آشفتہ سری ہے کوئی چیز
شاعری کیا ہے مجھے بھی نہیں معلوم مگر
لوگ کہتے ہیں کہ یہ دل کی لگی ہے کوئی چیز
غزل
ایک طوفان کا سامان بنی ہے کوئی چیز
مہتاب حیدر نقوی