ایک تو تجھ سے مری ذات کو رسوائی ملی
اور پھر یہ بھی ستم ہے کہ تو ہرجائی ملی
مسکراتا ہوں تو ہونٹوں پہ جلن ہوتی ہے
تیری چاہت میں مجھے کرب کی یکجائی ملی
پھر کسی خوف سے جذبوں کے بدن کانپ اٹھے
جب بھی ان شبنمی آنکھوں سے پذیرائی ملی
ایک یہ لوگ کہ ساتھی بھی بدل لیتے ہیں
اک مرا دل کہ جسے ذات کی تنہائی ملی
جس نے دل والوں کی بستی میں رہائش رکھی
اس سیہ بخت کو برسوں کی شکیبائی ملی
ظاہراً سب ہی لیے پھرتے ہیں روشن آنکھیں
ورنہ کتنے ہی جنہیں روح کی بینائی ملی
اس کی آنکھوں میں مرا نام فروزاں تھا نیازؔ
جس کے چہرے پہ مجھے اپنی شناسائی ملی
غزل
ایک تو تجھ سے مری ذات کو رسوائی ملی
نیاز حسین لکھویرا