EN हिंदी
ایک تو خود اپنی غمگینی | شیح شیری
ek to KHud apni ghamgini

غزل

ایک تو خود اپنی غمگینی

حیرت شملوی

;

ایک تو خود اپنی غمگینی
اس پر ان کی نکتہ چینی

اپنی شیرینی بھی تلخی
ان کی تلخی بھی شیرینی

کھل جائے گا یہ بھی اک دن
کس نے کس کی راحت چھینی

کافی ہے کیا یہ کہہ دینا
سب حالات کی ہے سنگینی

کر نہیں سکتی ہم کو قائل
صرف عبارت کی رنگینی

ہے یہ وفا وہ جرم محبت
ہے جس کی پاداش یقینی

کیا معلوم کسی کی مشکل
خود داری ہے یا خود بینی

آپ کی رائے عالی کیا ہے
دین ہے بہتر یا بے دینی

کیا کہنا اس ہوش و خرد کا
سوجھتی ہے جس کو شوقینی

اپنے دامن کو بھی دیکھیں
ہو منظور جنہیں گل چینی

اچھے اچھوں کو اے حیرتؔ
لے ڈوبی ہے بے آئینی