ایک تو کاوش جگر بھی کروں
اور پھر منت ثمر بھی کروں
عشق میں خیر تھا جنوں لازم
اب کوئی دوسرا ہنر بھی کروں
سوچتا ہوں ترے تعاقب میں
خود کو رسوائے بال و پر بھی کروں
پہلے بن مانگے زندگی دے دی
اور پھر شرط ہے بسر بھی کروں
شعر لکھوں بھی اور لوگوں میں
شاعری اپنی مشتہر بھی کروں
لفظ و معنی کا جبر جھیلوں بھی
اور پھر خود کو معتبر بھی کروں
کام کچھ بے سبب بھی کر ڈالوں
اور کچھ کام سوچ کر بھی کروں

غزل
ایک تو کاوش جگر بھی کروں
ندیم احمد