ایک تصویر جو کمرے میں لگائی ہوئی ہے
گھر کی ٹوٹی ہوئی دیوار چھپائی ہوئی ہے
قبر پہ دیپ نہ رکھ نام کا کتبہ نہ لگا
ہم نے مشکل سے یہ تنہائی کمائی ہوئی ہے
تخت اور تاج تو جوتوں میں پڑے رہتے ہیں
وہ گدائی ترے درویش نے پائی ہوئی ہے
ڈھول کا شور قیامت ہے کہ تیری بارات
دوسرے گاؤں سے گاؤں میں آئی ہوئی ہے
آنکھ پر شیشہ لگایا ہے کہ محفوظ رہے
تیری تصویر جو پانی میں بنائی ہوئی ہے

غزل
ایک تصویر جو کمرے میں لگائی ہوئی ہے
راشد امین