EN हिंदी
ایک تصویر جو کمرے میں لگائی ہوئی ہے | شیح شیری
ek taswir jo kamre mein lagai hui hai

غزل

ایک تصویر جو کمرے میں لگائی ہوئی ہے

راشد امین

;

ایک تصویر جو کمرے میں لگائی ہوئی ہے
گھر کی ٹوٹی ہوئی دیوار چھپائی ہوئی ہے

قبر پہ دیپ نہ رکھ نام کا کتبہ نہ لگا
ہم نے مشکل سے یہ تنہائی کمائی ہوئی ہے

تخت اور تاج تو جوتوں میں پڑے رہتے ہیں
وہ گدائی ترے درویش نے پائی ہوئی ہے

ڈھول کا شور قیامت ہے کہ تیری بارات
دوسرے گاؤں سے گاؤں میں آئی ہوئی ہے

آنکھ پر شیشہ لگایا ہے کہ محفوظ رہے
تیری تصویر جو پانی میں بنائی ہوئی ہے