ایک طرفہ بے خودی میں گم ہوا رہتا ہوں میں
بے محابا فاصلوں کو ناپتا رہتا ہوں میں
میرے خد و خال کو پہچاننا آساں نہیں
راستے کی گرد میں اکثر اٹا رہتا ہوں میں
جانتا ہوں ڈھونڈھتا ہوں اک سراب نور کو
پھر بھی اس کی کھوج میں پیہم لگا رہتا ہوں میں
کاروان شوق جس کو زندگی کہتے ہو تم
اس تگ و دو کے جلو میں ہی سدا رہتا ہوں میں
حضرت واعظ تجھے میرا پتہ کیوں کر ملے
جسم کے کعبے میں مانند خدا رہتا ہوں میں

غزل
ایک طرفہ بے خودی میں گم ہوا رہتا ہوں میں
جمیل یوسف