ایک سورج کو سرخ رو کر کے
لوٹ آئی ہوں اس کو چھو کر کے
بے غرض آج تک ملا نہ کوئی
تھک گئی میں بھی جستجو کر کے
زہر کا جام ہی پلائیں گے
لوگ میٹھی سی گفتگو کر کے
مجھ پہ انگلی اٹھائیے لیکن
آئنہ اپنے رو بہ رو کر کے
تیری یادیں مری عبادت ہیں
سوچتی ہوں تجھے وضو کر کے
تیری جانب چلے ہیں دیوانے
اپنے زخموں کو پھر رفو کر کے
ہم نے دل سے پکارا اس کو غزل
اپنے چہرے کو قبلہ رو کر کے
غزل
ایک سورج کو سرخ رو کر کے
شگفتہ یاسمین