EN हिंदी
ایک سورج کا کیا ذکر ہے کہکشائیں چلیں | شیح شیری
ek suraj ka kya zikr hai kahkashaen chalin

غزل

ایک سورج کا کیا ذکر ہے کہکشائیں چلیں

اظہار اثر

;

ایک سورج کا کیا ذکر ہے کہکشائیں چلیں
میں چلا تو مرے ساتھ ساری دشائیں چلیں

آگے آگے جنوں تھا مرا گرد اڑاتا ہوا
پیچھے پیچھے مرے آندھیوں کی بلائیں چلیں

کوئی زنجیر ٹوٹی تھی یا دل کی آواز تھی
دائرے سے بنائی ہوئی کیوں صدائیں چلیں

میں چلا تو ہر اک چیز ٹھہری ہوئی سی لگی
میں رکا تو یہ دھرتی چلی یہ فضائیں چلیں

اک شہادت نما تشنگی تھی مقدر مرا
میں جدھر بھی گیا ساتھ میں کربلائیں چلیں

جانے کس کے رسیلے لبوں کے مہک لائی تھیں
زخم آواز دینے لگے جب ہوائیں چلیں

ان سے ملنے کا منظر بھی دل چسپ تھا اے اثرؔ
اس طرف سے بہاریں چلیں اور ادھر سے خزائیں چلیں