EN हिंदी
ایک سوراخ سا کشتی میں ہوا چاہتا ہے | شیح شیری
ek suraKH sa kashti mein hua chahta hai

غزل

ایک سوراخ سا کشتی میں ہوا چاہتا ہے

شکیل اعظمی

;

ایک سوراخ سا کشتی میں ہوا چاہتا ہے
سب اثاثہ مرا پانی میں بہا چاہتا ہے

مجھ کو بکھرایا گیا اور سمیٹا بھی گیا
جانے اب کیا مری مٹی سے خدا چاہتا ہے

ٹہنیاں خشک ہوئیں جھڑ گئے پتے سارے
پھر بھی سورج مرے پودے کا بھلا چاہتا ہے

ٹوٹ جاتا ہوں میں ہر روز مرمت کر کے
اور گھر ہے کہ مرے سر پہ گرا چاہتا ہے

صرف میں ہی نہیں سب ڈرتے ہیں تنہائی سے
تیرگی روشنی ویرانہ صدا چاہتا ہے

دن سفر کر چکا اب رات کی باری ہے شکیلؔ
نیند آنے کو ہے دروازہ لگا چاہتا ہے