ایک شے تھی کہ جو پیکر میں نہیں ہے اپنے
جس کو دیتے ہو صدا گھر میں نہیں ہے اپنے
تجھے پانے کی تمنا تجھے چھونے کا خیال
ایسا سودا بھی کوئی سر میں نہیں ہے اپنے
تو نے تلوار بھی دیکھی نگۂ یار بھی دیکھ
یہ تب و تاب تو خنجر میں نہیں ہے اپنے
کس قبیلے سے اڑا لائی ہے فوج اعدا
ایسا جرار تو لشکر میں نہیں ہے اپنے
سرنگوں جس کی فقیری کے مقابل شاہی
اب وہ شے مرد قلندر میں نہیں ہے اپنے
لاکھ کیجے طلب راحت و آرام شریفؔ
کیا ملے گا جو مقدر میں نہیں ہے اپنے
غزل
ایک شے تھی کہ جو پیکر میں نہیں ہے اپنے
شریف احمد شریف