ایک سے سلسلے ہیں سب ہجر کی رت بتا گئی
پھر وہی صبح آئے گی پھر وہی شام آ گئی
میرے لہو میں جل اٹھے اتنے ہی تازہ دم چراغ
وقت کی سازشی ہوا جتنے دیے بجھا گئی
میں بھی بہ پاس دوستاں اپنے خلاف ہو گیا
اب یہی رسم دوستی مجھ کو بھی راس آ گئی
تند ہوا کے جشن میں لوگ گئے تو تھے مگر
تن سے کوئی قبا چھنی سر سے کوئی ردا گئی
دل زدگاں کے قافلے دور نکل چکے تمام
ان کی تلاش میں نگاہ اب جو گئی تو کیا گئی
آخر شب کی داستاں اور کریں بھی کیا بیاں
ایک ہی آہ سرد تھی سارے دیے بجھا گئی
غزل
ایک سے سلسلے ہیں سب ہجر کی رت بتا گئی
پیرزادہ قاسم