EN हिंदी
ایک سے ربط ایک سے ہے بگاڑ | شیح شیری
ek se rabt ek se hai bigaD

غزل

ایک سے ربط ایک سے ہے بگاڑ

میر مہدی مجروح

;

ایک سے ربط ایک سے ہے بگاڑ
روز ہے واں یہی اکھاڑ پچھاڑ

اب وہ دل میں کبھی نہیں آتے
مدتوں سے یہ گھر پڑا ہے اجاڑ

کیوں ہے بے کار موسم گل میں
جیب کر چاک اور گریباں پھاڑ

کار عاشق جو ہو نگہ میں درست
کہیے کیا آپ کا ہے اس میں بگاڑ

کہتے ہو غیر جائے تو آؤں
خوب رکھی ہے آپ نے یہ آڑ

سنگ دل رکھ رکھاؤ دل کا رکھ
کہیں اس شیشے میں نہ آئے دراڑ

غیر جائے تو کام کیوں نہ بنے
دور چھاتی سے ہو کہیں یہ پھاڑ

قد کو ان کے کہا تھا سرو تو وہ
پیچھے لپٹے ہیں میرے ہو کر جھاڑ

عشق سے رہ الگ جہاں تک ہو
کہیں سر پر نہ آ پڑے یہ پھاڑ

قتل تو کر چکے نہ ہو بدنام
میرے لاشے کو دو زمین میں گاڑ

اس کا چھایا ہوا ہے ابر ستم
کیوں نہ تیروں کی مجھ پہ ہو بوچھاڑ

کوئی مہمان تازہ وارد ہے
بند رہتے ہیں رات دن جو کواڑ

وہ تفنگ‌ مژہ ہیں صف آرا
تم پہ مجروحؔ چل نہ جائے باڑ