EN हिंदी
ایک سے جذبے خون میں سرخی ایک ہی تھی | شیح شیری
ek se jazbe KHun mein surKHi ek hi thi

غزل

ایک سے جذبے خون میں سرخی ایک ہی تھی

منیر سیفی

;

ایک سے جذبے خون میں سرخی ایک ہی تھی
دیس جدا تھے پیار کرنسی ایک ہی تھی

اس پر بھی بس لیلیٰ لیلیٰ لکھا تھا
اس کے پاس اگرچہ تختی ایک ہی تھی

گھوڑے بنانا چھوڑ دیے کمہاروں نے
گاؤں میں ڈوبنے والی لڑکی ایک ہی تھی

حصہ بخرے بانٹ لئے ہیں لوگوں نے
بے چارے کیا کرتے دھرتی ایک ہی تھی

پھر کوئی طوفان نہ آیا ٹھیک ہوا
ورنہ نوح کے پاس بھی کشتی ایک ہی تھی

اس کے بعد سراب تھا یا ویرانے تھے
سات زمینوں پر بھی بستی ایک ہی تھی

اپنے سامنے میں خود ہی صف آرا تھا
اور مری بندوق میں گولی ایک ہی تھی