ایک سجدہ خوش گلو کے آگے سہواً ہو گیا
اس پہ کوئی معترض ہوگا تو قصداً ہو گیا
کفر کا فتویٰ ہوا صادر تو خوش قسمت تھا میں
تذکرہ میرا بھی ہر مسجد میں ضمناً ہو گیا
آناً فاناً میں کسی نے دستگیری کی مری
کام تھا مشکل کا اہلاً اور سہلاً ہو گیا
طوعاً و کرہاً بڑھاتے ہیں ملاقاتوں کو ہاتھ
سب سے یارانہ مرا موقوف قطعاً ہو گیا
خواب ہی اس بار دیکھا تھا کبھی میں نے جسے
دو بدو اس سے تصادم اتفاقاً ہو گیا
مستحق جنت کا اک کاوشؔ نہیں وہ بھی تو ہے
قتل میرا ایک جاہل سے جو شرعاً ہو گیا
غزل
ایک سجدہ خوش گلو کے آگے سہواً ہو گیا
کاوش بدری