ایک روزن کے ابھی کردار میں ہوں میں
غور سے دیکھو اسی دیوار میں ہوں میں
سب مناظر زرد سے پڑنے لگے ہیں یا
بے یقینی کے اسی آزار میں ہوں میں
ٹوٹ جائے آسماں دھرتی بھی پھٹ جائے
کیا مجھے پروا کہ بزم یار میں ہوں میں
ذہن میں اولاد ہے اور گھر کی جانب ہوں
رک نہیں سکتا ابھی رفتار میں ہوں میں
گھر کی ہر شے کیوں مجھے بے نور لگتی ہے
کیا زیادہ آج کل بازار میں ہوں میں
شہرتوں کا آخری چارہ جرائم تھے
دیکھیے اب کس قدر اخبار میں ہوں میں
گفتگو سے کب مجھے پرہیز ہے سوربھؔ
بولتا سنتا مگر اشعار میں ہوں میں

غزل
ایک روزن کے ابھی کردار میں ہوں میں
سوربھ شیکھر