ایک رہزن کو امیر کارواں سمجھا تھا میں
اپنی بد بختی کو منزل کا نشاں سمجھا تھا میں
تیری معصومی کے صدقے میری محرومی کی خیر
اے کہ تجھ کو صورت آرام جاں سمجھا تھا میں
دشمن دل دشمن دیں دشمن ہوش و حواس
ہائے کس نا مہرباں کو مہرباں سمجھا تھا میں
دوست کا در آ گیا تو خود بخود جھکنے لگی
جس جبیں کو بے نیاز آستاں سمجھا تھا میں
قافلے کا قافلہ ہی راہ میں گم کر دیا
تجھ کو تو ظالم دلیل رہرواں سمجھا تھا میں
میرے دل میں آ کے بیٹھے اور یہیں کے ہو گئے
آپ کو تو یوسف بے کارواں سمجھا تھا میں
اک دروغ مصلحت آمیز تھا تیرا سلوک
یہ حقیقت تھی مگر یہ بھی کہاں سمجھا تھا میں
زندگی انعام قدرت ہی سہی لیکن اسے
کیا غلط سمجھا اگر یار گراں سمجھا تھا میں
پھیر تھا قسمت کا وہ چکر تھا میرے پاؤں کا
جس کو شعلہؔ گردش ہفت آسماں سمجھا تھا میں
غزل
ایک رہزن کو امیر کارواں سمجھا تھا میں
دوارکا داس شعلہ