EN हिंदी
ایک قدم تیغ پہ اور ایک شرر پر رکھا | شیح شیری
ek qadam tegh pe aur ek sharar par rakkha

غزل

ایک قدم تیغ پہ اور ایک شرر پر رکھا

عباس تابش

;

ایک قدم تیغ پہ اور ایک شرر پر رکھا
میری وحشت نے مجھے رقص دگر پر رکھا

میرے مالک نے تجھے آئنہ داری دے کر
نگراں تجھ کو مرے حسن نظر پر رکھا

لا تعلق نظر آتا تھا بظاہر لیکن
شہر کو اس نے مری خیر خبر پر رکھا

زندگی تو نے قدم موڑ دیئے اور طرف
اور اندر سے مجھے اور سفر پر رکھا

اہل وحشت کو مگر کون بتاتا جا کر
ہو گیا ناف غزالیں کوئی گھر پر رکھا

کونپلیں پھوٹ پڑیں دست دعا سے میرے
دم آمین جو میں دیدۂ تر پر رکھا

ختم ہوتی ہی نہیں گریہ و زاری ان کی
میر نے ہاتھ تو ہر لفظ کے سر پر رکھا

میں نے اس ڈر سے اسے توڑ لیا ہے تابشؔ
سوکھ جائے نہ کہیں شاخ شجر پر رکھا