ایک پودا جو اگا ہے اسے پانی دینا
اپنے آنگن کو نئی رت کی کہانی دینا
تری آواز سے جب ٹوٹے مرے گھر کا سکوت
در و دیوار کو بھی سحر بیانی دینا
پونچھ لینا مری پلکوں سے لہو کی بوندیں
مری آنکھوں کو اگر منظر ثانی دینا
کشتیاں دینا مگر اذن سفر سے پہلے
ٹھہرے پانی کو بھی دریا کی روانی دینا
یوں جلوں میں کہ نہ شرمندہ رہوں سورج سے
اور کچھ اور مجھے سوختہ جانی دینا
ریت پر نقش کف پا نہیں رہنے پاتے
اہل صحرا کو کوئی اور نشانی دینا
غزل
ایک پودا جو اگا ہے اسے پانی دینا
قیصر شمیم