ایک پیکر یوں چمک اٹھا ہے میرے دھیان میں
کوئی جگنو اڑ رہا ہو جس طرح طوفان میں
ہر بگولہ بستیوں کی سمت لہرانے لگا
آشنا چہرے بھی اب آتے نہیں پہچان میں
کیا قیامت ہے کہ کوئی پوچھنے والا نہیں
زندگی تنہا کھڑی ہے حشر کے میدان میں
وقت پڑتے ہی ہوئے روپوش سب حلقہ بگوش
اک یہی خوبی تو ہے اس دور کے انسان میں
آئنے یادوں کے میں نے توڑ ڈالے تھے مگر
چند چہرے پھر ابھر آئے مرے وجدان میں
لوگ میری موت کے خواہاں ہیں افضلؔ کس لیے
چند غزلوں کے سوا کچھ بھی نہیں سامان میں
غزل
ایک پیکر یوں چمک اٹھا ہے میرے دھیان میں
افضل منہاس