ایک پیکر ہے کہ امسال میں آتا ہی نہیں
جیسے آئینہ خد و خال میں آتا ہی نہیں
آسماں کا یہ قفس قید کرے بھی کیسے
دل وہ پنچھی کہ پر و بال میں آتا ہی نہیں
ہم جسے دیکھتے ہیں اس کے علاوہ بھی ہے
اک زمانہ جو مہ و سال میں آتا ہی نہیں
اپنے رہنے کو بھی کیا شہر ملا ہے جس کا
حال یہ ہے کہ کسی حال میں آتا ہی نہیں
مانتا کب ہے کسی سود و زیاں کو یہ دل
ایسا وحشی ہے کسی چال میں آتا ہی نہیں

غزل
ایک پیکر ہے کہ امسال میں آتا ہی نہیں
خالد محمود ذکی