EN हिंदी
ایک پہنچا ہوا مسافر ہے | شیح شیری
ek pahuncha hua musafir hai

غزل

ایک پہنچا ہوا مسافر ہے

زبیر علی تابش

;

ایک پہنچا ہوا مسافر ہے
دل بھٹکنے میں پھر بھی ماہر ہے

کون لایا ہے عشق پر ایماں
میں بھی کافر ہوں تو بھی کافر ہے

درد کا وہ جو حرف اول تھا
درد کا وہ ہی حرف آخر ہے

کام ادھورا پڑا ہے خوابوں کا
آج پھر نیند غیر حاضر ہے

لاج رکھ لی تری سماعت نے
ورنہ تابشؔ بھی کوئی شاعر ہے