EN हिंदी
ایک نئے سانچے میں ڈھل جاتا ہوں میں | شیح شیری
ek nae sanche mein Dhal jata hun main

غزل

ایک نئے سانچے میں ڈھل جاتا ہوں میں

بھارت بھوشن پنت

;

ایک نئے سانچے میں ڈھل جاتا ہوں میں
قطرہ قطرہ روز پگھل جاتا ہوں میں

جب سے وہ اک سورج مجھ میں ڈوبا ہے
خود کو بھی چھو لوں تو جل جاتا ہوں میں

آئینہ بھی حیرانی میں ڈوبا ہے
اتنا کیسے روز بدل جاتا ہوں میں

میٹھی میٹھی باتوں میں معلوم نہیں
جانے کتنا زہر اگل جاتا ہوں میں

اب ٹھوکر کھانے کا مجھ کو خوف نہیں
گرتا ہوں تو اور سنبھل جاتا ہوں میں

اکثر اب اپنا پیچھا کرتے کرتے
خود سے کتنی دور نکل جاتا ہوں میں