ایک مشکل سی بہر طور بنی ہوتی ہے
تجھ سے باز آئیں تو پھر خود سے ٹھنی ہوتی ہے
کچھ تو لے بیٹھتی ہے اپنی شکستہ پائی
اور کچھ راہ میں چھاؤں بھی گھنی ہوتی ہے
میرے سینے سے ذرا کان لگا کر دیکھو
سانس چلتی ہے کہ زنجیر زنی ہوتی ہے
آبلہ پائی بھی ہوتی ہے مقدر اپنا
سر پہ افلاک کی چادر بھی تنی ہوتی ہے
دودھ کی نہر نکالی ہے غموں سے ہم نے
ہم بتا سکتے ہیں کیا کوہ کنی ہوتی ہے
آنکھ تو کھلتی ہے کرنوں کی طلب میں لیکن
زیب مژگاں کسی نیزے کی انی ہوتی ہے
دشت غربت ہی پہ موقوف نہیں ہے تابشؔ
اب تو گھر میں بھی غریب الوطنی ہوتی ہے
غزل
ایک مشکل سی بہر طور بنی ہوتی ہے
عباس تابش