ایک مدت سے اسے ہم نے جدا رکھا ہے
یہ الگ بات ہے یادوں میں بسا رکھا ہے
ہے خلا چاروں طرف اس کے تو ہم کیوں نہ کہیں
کس نے اس دھرتی کو کاندھوں پہ اٹھا رکھا ہے
جو سدا ساتھ رہے اور دکھائی بھی نہ دے
نام اس کا تو زمانے نے خدا رکھا ہے
مرے چہرے پہ اجالا ہے تو حیراں کیوں ہے
ہم نے سپنے میں بھی ایک چاند چھپا رکھا ہے
جو طلب چاندنی راتوں میں بھٹکتی ہی رہی
اب اسے دھوپ کی چادر میں سلا رکھا ہے
غزل
ایک مدت سے اسے ہم نے جدا رکھا ہے
پریم بھنڈاری