ایک مدت سے تجھے دل میں بسا رکھا ہے
میں تجھے یاد دہانی سے الگ رکھتا ہوں
وہ سنے گا تو چھلک اٹھیں گی آنکھیں اس کی
اس لیے خود کو کہانی سے الگ رکھتا ہوں
وہ جو بچپن میں ترے ساتھ پڑھا کرتا تھا
ان کتابوں کو نشانی سے الگ رکھتا ہوں
تذکرہ اس کا غزل میں نہیں کرتا ہوں رئیسؔ
میں اسے لفظ و معانی سے الگ رکھتا ہوں
غزل
ایک مدت سے تجھے دل میں بسا رکھا ہے (ردیف .. ن)
رئیس انصاری