EN हिंदी
ایک مدت سے سر دوش ہوا ہوں میں بھی | شیح شیری
ek muddat se sar-e-dosh-e-hawa hun main bhi

غزل

ایک مدت سے سر دوش ہوا ہوں میں بھی

عفت عباس

;

ایک مدت سے سر دوش ہوا ہوں میں بھی
اتنا شفاف کہ ھم رنگ فضا ہوں میں بھی

تو بھی واقف مری تاثیر کے محشر سے ہے
اور منت کش الطاف و عطا ہوں میں بھی

تو منادر کے سنگھاسن پہ بصد عز و وقار
پھول کی تھال میں لو دیتا دیا ہوں میں بھی

تو بھی اظہار تعلق کے سبب ڈھونڈتا ہے
شدت شوق سے جویائے رضا ہوں میں بھی

حرم ناز کی چلمن سے الجھنے والی
دل بیتاب محبت کی دعا ہوں میں بھی

مشتری میرا بھی آئے گا یہ میں جانتا ہوں
پہلے بازار میں آنے سے بکا ہوں میں بھی

ہو جو یک پہلو و یک رنگ نہیں ہے تو شہابؔ
شعلہ و شبنم و سیماب و صبا ہوں میں بھی