ایک مدت سے نہیں دیکھی ہے گھر کی صورت
گردشیں آج بھی لپٹی ہیں سفر کی صورت
قفس جاں میں نہ روزن ہے نہ در کی صورت
کیسے دیکھوں میں یہاں شمس و قمر کی صورت
اب یہی جنگ کا عنوان بھی ہو سکتا ہے
اس نے پتھر کوئی پھینکا ہے خبر کی صورت
ماں کی آغوش سے پیوند زمیں ہونے تک
آئینے ہم نے تراشے ہیں سفر کی صورت
مکڑیاں اپنے ہی جالوں میں پھنسی بیٹھی ہیں
ابھی کل تک تو نہ تھی یہ میرے گھر کی صورت
روز اخبار اٹھاتے ہیں یہی سوچ کے ہم
کوئی مژدہ نظر آئے تو خبر کی صورت
ہم ضیاؔ سر کو بچائیں تو بچائیں کیسے
اس کا ہر وار نمایاں ہے ہنر کی صورت
غزل
ایک مدت سے نہیں دیکھی ہے گھر کی صورت
ضیا فاروقی