EN हिंदी
ایک مہماں کا ہجر طاری ہے | شیح شیری
ek mehman ka hijr tari hai

غزل

ایک مہماں کا ہجر طاری ہے

فہمی بدایونی

;

ایک مہماں کا ہجر طاری ہے
میزبانی کی مشق جاری ہے

صرف ہلکی سی بے قراری ہے
آج کی رات دل پہ بھاری ہے

کوئی پنچھی کوئی شکاری ہے
زندہ رہنے کی جنگ جاری ہے

بس ترے غم کی غم گساری ہے
اور کیا شاعری ہماری ہے

آپ ظالم ہیں شبنمی باتیں
اور مری پیاس ریگ زاری ہے

اب کہاں دشت میں جنوں والے
جس کو دیکھو وہی شکاری ہے

میرے آنسو نہیں ہیں لا وارث
اک تبسم سے رشتہ داری ہے