EN हिंदी
ایک مرکز پہ سمٹ آئی ہے ساری دنیا | شیح شیری
ek markaz pe simaT aai hai sari duniya

غزل

ایک مرکز پہ سمٹ آئی ہے ساری دنیا

چرن سنگھ بشر

;

ایک مرکز پہ سمٹ آئی ہے ساری دنیا
ہم تماشا ہیں تماشائی ہے ساری دنیا

جشن ہوگا کسی آئینہ صفت کا شاید
سنگ ہاتھوں میں اٹھا لائی ہے ساری دنیا

وہ خدا تو نہیں لیکن ہے خدا کا بندہ
جس کی آواز سے تھرائی ہے ساری دنیا

وہ بھی دنیا کے لیے چھوڑ رہا ہے مجھ کو
میں نے جس کے لیے ٹھکرائی ہے ساری دنیا

کیوں نگاہوں میں کھٹکتا ہے نظام قدرت
کیوں بغاوت پہ اتر آئی ہے ساری دنیا

موت کو دوست بنانا ہی مناسب ہے بشرؔ
زندگی کی تو تمنائی ہے ساری دنیا