ایک منزل ہے ایک جادہ ہے
زندگی میری کتنی سادہ ہے
تو مجھے اپنا ایک پل دے گا
یہ کرم مجھ پہ کچھ زیادہ ہے
جو رکے ہیں سوار ہیں سارے
چلنے والا تو پا پیادہ ہے
صدق دل سے پکارنا مجھ کو
لوٹ آؤں گا میرا وعدہ ہے
پھر جو کرنے لگا ہے تو وعدہ
کیا مکرنے کا پھر ارادہ ہے
ظرف دنیا جو تنگ ہے تیمورؔ
تیرا دل بھی کہاں کشادہ ہے
غزل
ایک منزل ہے ایک جادہ ہے
تیمور حسن