ایک منظر اضطرابی ایک منظر سے زیادہ
دل ہے ساحل دل سفینہ دل سمندر سے زیادہ
دو جہاں کی نعمتوں کو دو بدن سے ضرب دے کر
ایک لمحہ مانگتا ہوں بندہ پرور سے زیادہ
اے بت توبہ شکن میں تجھ سے مل کر سوچتا ہوں
پھول میں ہوتی نزاکت کاش پتھر سے زیادہ
حسرت شہر نصیباں کیا تجھے معلوم بھی ہے
دشت ہے آباد یعنی عشق کے گھر سے زیادہ
چشم و لب سے پہلے اک تشنہ تعلق چاہتا ہوں
اور پھر آسودگی تسنیم و کوثر سے زیادہ
ایک لرزیدہ فضا ہے آسماں کی وسعتوں میں
اک پرندہ اڑ رہا ہے اپنے شہ پر سے زیادہ
بستیوں کے لوگ سارے برف ہوتے جا رہے ہیں
بے رخی اچھی نہیں خورشید اکبرؔ سے زیادہ
غزل
ایک منظر اضطرابی ایک منظر سے زیادہ
خورشید اکبر