ایک میں ہوں ایک تو ہے با خبر کوئی نہیں
ہاتھ میں دے ہاتھ اپنا سر بسر کوئی نہیں
شام مشفق ہے قریب آ درد کا درماں کریں
رات کے صحرا میں اپنا چارہ گر کوئی نہیں
ریت کے سینہ پہ رہ رہ کر چمک اٹھتا ہے کچھ
اب بہ جز اک نقش پا کے راہ بر کوئی نہیں
موڑ کے بائیں طرف ہے سنگ اندازوں کا شہر
دل سا آئینہ نہ لے جا شیشہ گر کوئی نہیں
جانے یہ آسیب ہے کس کی صدا کا در بہ در
میں یہاں ہوں میں یہاں ہوں دیدہ ور کوئی نہیں
ڈھونڈتے پھرتے ہو کس کو چاند کی مشعل لیے
زندگی اک فاصلہ ہے منتظر کوئی نہیں
غزل
ایک میں ہوں ایک تو ہے با خبر کوئی نہیں
صہبا وحید