EN हिंदी
ایک مفروضہ تقدس خود پہ طاری کر رہا ہوں | شیح شیری
ek mafruza taqaddus KHud pe tari kar raha hun

غزل

ایک مفروضہ تقدس خود پہ طاری کر رہا ہوں

خورشید اکبر

;

ایک مفروضہ تقدس خود پہ طاری کر رہا ہوں
کوہ عصیاں سے بہشتی نہر جاری کر رہا ہوں

چاہتا ہوں عرش و کرسی تک پہنچنا رفتہ رفتہ
اسفلینی خواہشوں پر یوں سواری کر رہا ہوں

منہمک ہے پیرہن شغلی میں کیوں چشم تخیل
میں ابھی عریاں بدن پر دست کاری کر رہا ہوں

نفس تسکینی پہ اس نے سو تقاضے رکھ دیئے ہیں
میں جو ہر لذت پہ فکر حمد باری کر رہا ہوں

سرنگوں گزرا ہے شاید اب کے تلواروں کا موسم
بے ارادہ شہر کی مردم شماری کر رہا ہوں